پاکستان کی مشہور اداکارہ اُشنا شاہ گذشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا صارفین کے نشانے پر ہیں، اس کی وجہ ان کی وہ جوابی انسٹاگرام پوسٹ ہے جس میں انہوں نے غیرملکی سوشل میڈیا انفلوئنسر روزی گیبریئل پر تنقید کی تھی۔
پاکستان میں غیر ملکی سوشل میڈیا انفلوئنسر روزی گیبریئل نے چند دن قبل اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر کچھ تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے شہر ہنزہ میں سیر و تفریح کے لیے آنے والے پاکستانی شہری اپنے ساتھ برا رویہ اور منشیات لے کر آتے ہیں اور کچرا چھوڑ جاتے ہیں۔‘
انہوں نے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ ’آپ اپنے ملک کو تباہ کر دیں گے۔‘
اس پوسٹ کے جواب میں اشنا شاہ نے تبصرہ کیا تھا کہ ’ہم کس چیز کو نہیں سراہتے؟ فیصلہ صادر کرنے والے سیاہ فاموں کو۔ ہمیں خود کو سدھارنے کے لیے آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کی حکومت کو یو ٹیوب ویزوں کا اجرا اب روک دینا چاہیے۔‘
اشنا شاہ پر تنقید کی جا رہی تھی کہ وہ ایک غیر ملکی انفلوئنسر سے ’ان سکیور‘ ہو رہی ہیں اور بجائے اصلاح کی ترغیب دینے کے وہ الٹا تنقید کر رہی ہیں۔ کئی صارفین نے اشنا کی جانب سے ’سیاہ فام نجات دہندہ‘ کی اصطلاح کا استعمال کرنے پر انہین آڑے ہاتھوں لیا۔
اشنا شاہ نے بدھ کو اس حوالے سے ایک بار پھر اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ شیئر کی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’ویسے تو موضوع ختم ہو چکا ہے لیکن کیونکہ میرا آرٹیکل مختلف حصوں میں سوشل میڈیا پر ہے میں نے سوچا میں مکمل آرٹیکل یہاں شیئر کر دوں۔‘
اشنا شاہ نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’میرے سے متعلق تنازعے کو کچھ ہی دن ہوئے ہیں، میرے خیالات کی غلط تشریح کی گئی اور ہیڈلائنز بنائی گئیں۔ کی بورڈ کے پیچھے بیٹھے کچھ لوگوں نے مجھے ٹرول کرنے کے لیے اپنے انتہائی مصروف شیڈول میں سے وقت نکالا۔‘
’مجھے ریپ اور قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں ان چیزوں سے ڈری لیکن سچ یہ ہے کہ میری زندگی کا حصہ ہیں اور میں ان کے بغیر نامکمل محسوس کرتی ہوں، جیسا کہ ہمارے پسندیدہ عاطف اسلم نے کہا کہ ’اب تو عادت سی ہے مجھ کو۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’پہلی بات تو یہ کہ میرا اپنے نفرت کرنے والوں کے لیے پیغام ہے کہ میرے دوستو! مجھ سے نفرت کرو لیکن ایسا کرنے کے لیے کوئی سچی وجہ بھی ڈھونڈو۔ پہلے تحقیق کریں۔ ماحول، کچرا اور صفائی، جانوروں کا تحفظ اور شہری ذمہ داری یہ وہ موضوعات ہیں جن پر میں بہت برسوں سے بات کرتی رہی ہوں۔‘
’میں کچھ سال پہلے ہنزہ گئی تھی، مجھے بھی ان کی تاریخ اور ثقافت پسند ہے۔ میں نے بھی راکاپوشی کے سامنے سیلفیاں لی تھیں۔ میں نے اپنا کچرا بھی اٹھایا تھا تاہم میں اپنے کچرا اٹھانے کی تصاویر لینا بھول گئی۔ میں مزید لائکس اور فالوورز حاصل کرنے کے لیے غربت دکھانا بھول گئی۔ میں معذرت کرتی ہوں میں آئندہ محتاط رہوں گی۔‘
اشنا شاہ کہتی ہیں کہ ’مذاق ایک طرف لیکن میں نے ’سفید فام نجات دہندہ‘ کی اصطلاح ایجاد نہیں کی۔ پوری دنیا بشمول افریقہ اور لاطینی امریکہ اس اصطلاح کو ان سیف فام افراد کے لیے استعمال کرتا ہے جو نہ صرف اپنی برتری ثابت کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو یہ سوچنے پر مجبور کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے کہ دنیا ان کے گرد گھومتی ہے۔‘
اشنا شاہ نے لکھا کہ ’شنیرا اکرم نے بڑے مناسب طریقے سے کلین کراچی مہم کے ذریعے لوگوں کو صفائی کی ترغیب دی‘ (فوٹو: شنیرا اکرم ٹوئٹر)
اشنا نے مزید لکھا کہ ’مجھے ہمیشہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی سفید فام افراد سے محبت کرتے ہیں۔ اگر کوئی پاکستانی وی لاگر لبرٹی مارکیٹ سے دال چاول کھاتا ہے اس ویڈیو کو تین سو افراد دیکھتے ہیں لیکن یہی دال چاول کوئی گورا کھاتا ہے تو نیوز چینلز اس جگہ پر کیمرے لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ کہ ان خاص قسم کے افراد کو ہماری اس کمزوری کا اچھے سے اندازہ ہے اور وہ اس کا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘
اشنا نے یہ وضاحت بھی کی کہ ’وہ پاکستان میں موجود تمام غیرملکیوں کے بارے میں ایسا نہین سوچتیں۔‘ انہوں نے لکھا کہ ’ہمارے پاس شنیرا اکرم ہیں، جارج فلٹن ہیں۔ شنیرا اکرم نے بڑے مناسب طریقے سے کلین کراچی مہم کے ذریعے لوگوں کو صفائی کی ترغیب دی۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ’تم لوگوں کو اپنا شہر صاف کرنے کی ضرورت ہے۔‘ بلکہ انہوں نے کہا کہ ’آئیے مل کر اپنا شہر صاف کرتے ہیں۔‘
اشنا نے مزید لکھا کہ ’دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ سفید فام افراد جو تصاویر، لائکس اور فالوورز کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں وہ غربت، کچرے مسائل اور تباہیوں کی تصاویر لیتے ہیں۔ وہ پاکستان کی خوب صورتی بھی دکھاتے ہیں لیکن یہ بھی اس طریقے سے کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ ایک مایوس کن ملک کی آخری امید ہو۔‘
اشنا نے زور دیا کہ ’میں تمام سفید فام سیاحوں اور وی لاگرز کے بارے میں ایسا نہیں کہہ رہی۔ ان کی سوشل میڈیا پوسٹس ہمیں یہ سکھانے کے لیے ہوتی ہیں کہ ہمیں اپنی زندگیاں کیسی گزارنی چاہییں۔‘
’اب براہ مہربانی واپس جائیے اور شنیرا اکرم اور جارج فلٹن کی پوسٹس اور کیپشنز چیک کیجیے اور ان کا ان سفید فاموں سے موازنہ کیجیے آپ کو واضح فرق دکھائی دے گا۔‘